حدیث
عن عائشة ، (رضی اللہ عنہا) قالت : ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسرد سردكم هذا ولكنه كان يتكلم بكلام بينه فصل يحفظه من جلس إليه ، قال أبو عيسى : هذا حسن صحيح ، لا نعرفه إلا من حدیث الزهري، وقد رواه يونس بن يزيد عن الزهري
ترجمہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے بلکہ آپ ایسی گفتگو کرتے جس میں ٹھراؤ ہوتا تھا، جو آپ کے پاس بیٹھا ہوتا وہ اسے یاد کرلیتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جانتے ہیں، اسے یونس بن یزید نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔
تخریج
سنن ترمذی: رقم الحدیث 3639
مزید مختلف الفاظ کے ساتھ کئی کتابوں میں آتی ہے۔
تحقیق
روایت تو صحیح ہے ان شاءاللہ عزوجل۔ اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ زہری کی تدلیس ہے جس وجہ سے ضعیف ہے۔ اس کا جواب حاضر ہے:
-
امام زہری رحمہ اللہ کا سماع کئی جگہ موجود ہے:
- صحیح ابن حبان رقم الحدیث 7153
- صحیح مسلم رقم الحدیث 2493
- صحیح بخاری رقم الحدیث 3568
- مسند احمد رقم الحدیث 24865
- المدخل الی السنن الکبری للبیہقی رقم الحدیث 594، اور حدیث 593 میں بھی سماع
- مسند ابی یعلی رقم الحدیث 4393
-
اس کے علاوہ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث 10173، کتاب الآداب للبیہقی رقم الحدیث 311، اور السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر 5757 پر بھی آتی ہے۔
-
اگر کوئی کہے کہ اس سند میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سفیان ثوری کا سماع ثابت ہے۔ امام بیہقی نے حدیث نمبر 5759 پر وضاحت کی ہے کہ اسناد صحیح ہیں اور یونس بن یزید وغیرہ سے بھی یہ روایت صحیح ثابت ہے۔
لہذا یہ روایت صحیح ہے الحمدللہ۔
امام ترمذی، امام بیہقی وغیرہ اہل علم محققین کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔
اس تحریر کے لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کچھ بھائی اس روایت پر گفتگو کررہے تھے، کوئی زہری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہہ رہا تھا تو کوئی شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے حکم پر تبصرہ۔ آج میں نے اس روایت کی تحقیق کی اور اس کی اسناد و متن پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ روایت صحیح ہے الحمدللہ۔
طالب دعا: حافظ عبد الخالق قدوسی